EN हिंदी
کیا سے کیا ہو گئی اس دور میں حالت گھر کی | شیح شیری
kya se kya ho gai is daur mein haalat ghar ki

غزل

کیا سے کیا ہو گئی اس دور میں حالت گھر کی

رہبر جونپوری

;

کیا سے کیا ہو گئی اس دور میں حالت گھر کی
دشت پر نور ہوئے بڑھ گئی ظلمت گھر کی

اب نہ دروازے کی رونق نہ وہ آنگن کا ہجوم
کس قدر بار ہے آنکھوں پہ زیارت گھر کی

سب کی دہلیز پہ جلتے ہیں تعصب کے چراغ
کیا کرے گا کوئی ایسے میں حفاظت گھر کی

خامشی فرضی روایات عنایت ایثار
انہیں بنیادوں پہ موقوف ہے عظمت گھر کی

جن کے حصے میں کوئی سایۂ دیوار نہیں
وہ بھی انساں ہیں انہیں بھی ہے ضرورت گھر کی

لاکھ قسمت میں غریب الوطنی ہو رہبرؔ
کھینچ لائی ہے مگر پھر بھی محبت گھر کی