EN हिंदी
کیا سب اس نے سن کر ان سنا کیا | شیح شیری
kya sab usne sun kar an-suna kya

غزل

کیا سب اس نے سن کر ان سنا کیا

پون کمار

;

کیا سب اس نے سن کر ان سنا کیا
وہ خود میں اس قدر تھا مبتلا کیا

میں ہوں گزرا ہوا سا ایک لمحہ
مرے حق میں دعا کیا بد دعا کیا

کرن آئی کہاں سے روشنی کی
اندھیرے میں کوئی جگنو جلا کیا

مسافر سب پلٹ کر آ رہے ہیں
وہاں سے بند ہے ہر راستہ کیا

میں اک مدت سے خود ہی گم شدہ ہوں
بتاؤں آپ کو اپنا پتا کیا

یہ محفل دو دھڑوں میں بٹ گئی ہے
ذرا پوچھو ہے کس کا مدعا کیا

محبت رہ گزر ہے کہکشاں سی
سو اس میں ابتدا کیا انتہا کیا