کیا ساتھ ترا دوں کہ میں اک موج ہوا ہوں
بس ایک نفس عرض تمنا کو رکا ہوں
رہتا ہوں بگولوں کی طرح رقص میں بے تاب
اے ہم نفسو میں دل صحرا سے اٹھا ہوں
قطرہ ہوں میں دریا میں مجھے کچھ نہیں معلوم
ہمراہ مرے کون ہے میں کس سے جدا ہوں
اک لمحہ ٹھہر مجھ کو بھی ہمراہ لیے چل
اے لیلیٰ ہستی ترا نقش کف پا ہوں
اے ضبط نظر دے مرے ایماں کی گواہی
تو ہی تو سمجھتا ہے کہ میں کون ہوں کیا ہوں
چاہے بھی تو وہ مجھ سے جدا ہو نہیں سکتا
وہ ہے مری زنجیر تو میں اس کی صدا ہوں
میں عرش نشیں بھی ہوں ترے گھر کا مکیں بھی
میں نکہت ایمان ہوں میں بوئے وفا ہوں
غزل
کیا ساتھ ترا دوں کہ میں اک موج ہوا ہوں
عرش صدیقی