کیا رات کٹی اپنی الجھتے ہوئے جاں سے
پھر نیند بھی آتی ہے کہاں شور سگاں سے
اے عشق گرہ کھول تو اب میری زباں کی
کرنی ہے مجھے بات ذرا ہم نفساں سے
چپکے سے مرے دل نے کہا کان میں کل شب
یوں ہاتھ اٹھاتا ہے کوئی عشق بتاں سے
وہ آبلہ پائی کو مری دیکھ کے بولا
دیوانے ذرا پھوٹ بھی کچھ اپنی زباں سے
میں تیرا پڑوسی ہوں میاں قیس چلیں ساتھ
صحرا ترا کچھ دور نہیں میرے مکاں سے
آباد ہے اس دل کا جہاں جس کے قدم سے
وہ مجھ کو پکارے ہے کسی اور جہاں سے
پھر لوٹ کے آیا نہ تری طرح مرے پاس
وہ تیر جو نکلا تھا کبھی میری کماں سے
غزل
کیا رات کٹی اپنی الجھتے ہوئے جاں سے
نذیر آزاد