کیا قدر انا ہوگی جبیں جان رہی ہے
جس شہر میں سجدوں کی ہی پہچان رہی ہے
کچھ ہم نے بھی دنیا کو ستایا ہے بہر حال
کچھ اپنی طبیعت سے بھی ہلکان رہی ہے
مضبوط رہا حسن نظر سے مرا رشتہ
جب تک وہ مرے شہر میں مہمان رہی ہے
مئے نے بھی دیا ہے مری وحشت کو بڑھاوا
دو چار دنوں وہ بھی نگہبان رہی ہے
اس کو تو سفر کرتے نہیں دیکھا کسی نے
راہوں کی مگر دھول اسے پہچان رہی ہے
وہ ہو کہ نہ ہو فرق نہیں پڑتا ہے کچھ بھی
یہ رات کئی صدیوں سے ویران رہی ہے
کیا جانے کہاں ختم ہو اشہرؔ کی کہانی
اب تک تو کسی درد کا عنوان رہی ہے
غزل
کیا قدر انا ہوگی جبیں جان رہی ہے
اشہر ہاشمی