EN हिंदी
کیا پھر زمین دل کی نمناک ہو رہی ہے | شیح شیری
kya phir zamin dil ki namnak ho rahi hai

غزل

کیا پھر زمین دل کی نمناک ہو رہی ہے

عبید صدیقی

;

کیا پھر زمین دل کی نمناک ہو رہی ہے
اک بیل آرزو کی پیچاک ہو رہی ہے

یلغار کر رہا ہے اک روشنی کا لشکر
تاریکیوں کی چادر پھر چاک ہو رہی ہے

اس کو سکھا رہا ہے عیاریاں زمانہ
دنیا بھی رفتہ رفتہ چالاک ہو رہی ہے

اس نے بنا دیا ہے ماتم کدہ جہاں کو
خلقت فسردگی کی خوراک ہو رہی ہے

اس کے سبب سے جینا دشوار ہو گیا ہے
اس بات کی مذمت کیا خاک ہو رہی ہے