کیا پھر زمین دل کی نمناک ہو رہی ہے
اک بیل آرزو کی پیچاک ہو رہی ہے
یلغار کر رہا ہے اک روشنی کا لشکر
تاریکیوں کی چادر پھر چاک ہو رہی ہے
اس کو سکھا رہا ہے عیاریاں زمانہ
دنیا بھی رفتہ رفتہ چالاک ہو رہی ہے
اس نے بنا دیا ہے ماتم کدہ جہاں کو
خلقت فسردگی کی خوراک ہو رہی ہے
اس کے سبب سے جینا دشوار ہو گیا ہے
اس بات کی مذمت کیا خاک ہو رہی ہے
غزل
کیا پھر زمین دل کی نمناک ہو رہی ہے
عبید صدیقی