EN हिंदी
کیا نگاہوں نے کوئی خواب سجایا نہ کبھی | شیح شیری
kya nigahon ne koi KHwab sajaya na kabhi

غزل

کیا نگاہوں نے کوئی خواب سجایا نہ کبھی

جاوید جمیل

;

کیا نگاہوں نے کوئی خواب سجایا نہ کبھی
کیا کسی کو بھی قریب اپنے بلایا نہ کبھی

آتے رہنے کے لئے شکریہ اے یاد کہ دوست
میں ہی مجرم ہوں تری یاد میں آیا نہ کبھی

اس کی البم میں تو تصویر مری ہے موجود
اس نے تصویر کو سینے سے لگایا نہ کبھی

میں تجھے کیسے بتا دیتا دل ناز کا حال
حال دل میں نے تو خود کو بھی بتایا نہ کبھی

دل چرا کر مرا کہتا ہے مجھے چور یہ اب
خود ہی چوری ہوا اس نے تو چرایا نہ کبھی

قہقہے اوروں کی خوشیوں میں رہے ہیں شامل
میرے حالات نے خود مجھ کو ہنسایا نہ کبھی

میں نے اوروں سے سنا ہے کہ نسیم آتی ہے
کیوں مجھے وقت سحر اس نے جگایا نہ کبھی

تیری جاویدؔ یہ عادت ہے خدا کو بھی پسند
تو نے نظروں سے کسی کو بھی گرایا نہ کبھی