EN हिंदी
کیا نہ دیدوں سے زمانے کو سروکار ہے آج | شیح شیری
kya na-didon se zamane ko sarokar hai aaj

غزل

کیا نہ دیدوں سے زمانے کو سروکار ہے آج

رضا عظیم آبادی

;

کیا نہ دیدوں سے زمانے کو سروکار ہے آج
ایک درہم جو رکھے مالک دینار ہے آج

کل تو معمورۂ عالم کو ڈبایا اے چشم
کیا خرابی ہے تو پھر رونے کو تیار ہے آج

دیکھنا دیکھنا کیا دل میں لگی آتش عشق
کیوں مرا نالۂ خوں بار شرر بار ہے آج

اے رضاؔ خط سیہ اس کے نہیں چہرے پر
حسن کے واقعے کا یار عزا دار ہے آج