کیا نہ دیدوں سے زمانے کو سروکار ہے آج
ایک درہم جو رکھے مالک دینار ہے آج
کل تو معمورۂ عالم کو ڈبایا اے چشم
کیا خرابی ہے تو پھر رونے کو تیار ہے آج
دیکھنا دیکھنا کیا دل میں لگی آتش عشق
کیوں مرا نالۂ خوں بار شرر بار ہے آج
اے رضاؔ خط سیہ اس کے نہیں چہرے پر
حسن کے واقعے کا یار عزا دار ہے آج

غزل
کیا نہ دیدوں سے زمانے کو سروکار ہے آج
رضا عظیم آبادی