EN हिंदी
کیا مٹا دو گے نام پھولوں کا | شیح شیری
kya miTa doge nam phulon ka

غزل

کیا مٹا دو گے نام پھولوں کا

رومانہ رومی

;

کیا مٹا دو گے نام پھولوں کا
نہ کرو قتل عام پھولوں کا

رنگ و بو نے بھی ساتھ چھوڑ دیا
رفتہ رفتہ تمام پھولوں کا

گلستاں کو فروغ ہوگا مگر
شرط ہے احترام پھولوں کا

اک نہ اک دن حساب لینا ہے
باغباں سے تمام پھولوں کا

موسم گل ہے یہ خزاں تو نہیں
کیوں ہے برہم نظام پھولوں کا

ایک دو کا معاملہ تو نہیں
مسئلہ ہے تمام پھولوں کا

بجلیاں لے رہی ہیں گن گن کر
غالباً انتقام پھولوں کا

خون ناحق ہے یہ ارے توبہ
صبح غنچوں کا شام پھولوں کا

یوں جو مرجھا گئے بغیر کھلے
غم ہے ایسے تمام پھولوں کا

ہے سبھی کی نگاہ میں رومیؔ
آج کرب تمام پھولوں کا