EN हिंदी
کیا ملا قیس کو گرد رہ صحرا ہو کر | شیح شیری
kya mila qais ko gard-e-rah-e-sahra ho kar

غزل

کیا ملا قیس کو گرد رہ صحرا ہو کر

زیبا

;

کیا ملا قیس کو گرد رہ صحرا ہو کر
رہ گیا ہوتا غبار در لیلیٰ ہو کر

یاد آتے ہیں چمن میں جو کسی کے عارض
گل کھٹکتے ہیں مری آنکھوں میں کانٹا ہو کر

پہلے کیا تھا جو کیا کرتے تھے تعریف مری
اب ہوا کیا جو برا ہو گیا اچھا ہو کر

دل میں رکھ گرد کدورت نہ بہت اے کم بیں
کہیں رہ جائے نہ یہ آئنہ اندھا ہو کر

ہجر میں یاد مژہ اور بھی تڑپاتی ہے
قلب بسمل میں کھٹکتی ہے یہ کانٹا ہو کر

نالۂ گرم نے تاثیر عجب دکھلائی
رہ گیا مثل چراغ آپ میں ٹھنڈا ہو کر

یار کے رخ کی صباحت کا تصور شب ہجر
آیا تسکیں کو مری نور کا تڑکا ہو کر

دل سے کہتا ہے غم الفت جاناں دم مرگ
تم تو دنیا سے چلے میں رہوں کس کا ہو کر

چھوڑنا اے غم الفت نہ کبھی ساتھ اس کا
کہیں گھبرائے مرا دل نہ اکیلا ہو کر

آئے تو وصل کا دن ہو تو کہیں بوس و کنار
سب نکل جائے گی شرم ان کی پسینا ہو کر

جسم انور کی لطافت کی ثنا کیا کیجے
جامۂ یار نہ اترا کبھی میلا ہو کر

دہر کی دیکھتے ہیں پست و بلند اے زیباؔ
کربلا جائیں گے اس واسطے بطحا ہو کر