EN हिंदी
کیا کیا لوگ گزر جاتے ہیں رنگ برنگی کاروں میں | شیح شیری
kya kya log guzar jate hain rang-birangi caron mein

غزل

کیا کیا لوگ گزر جاتے ہیں رنگ برنگی کاروں میں

حبیب جالب

;

کیا کیا لوگ گزر جاتے ہیں رنگ برنگی کاروں میں
دل کو تھام کے رہ جاتے ہیں دل والے بازاروں میں

یہ بے درد زمانہ ہم سے تیرا درد نہ چھین سکا
ہم نے دل کی بات کہی ہے تیروں میں تلواروں میں

ہونٹوں پر آہیں کیوں ہوتیں آنکھیں نسدن کیوں روتیں
کوئی اگر اپنا بھی ہوتا اونچے عہدے داروں میں

صدر محفل داد جسے دے داد اسی کو ملتی ہے
ہائے کہاں ہم آن پھنسے ہیں ظالم دنیا داروں میں

رہنے کو گھر بھی مل جاتا چاک جگر بھی سل جاتا
جالبؔ تم بھی شعر سناتے جا کے اگر درباروں میں