EN हिंदी
کیا کیا ہیں گلے اس کو بتا کیوں نہیں دیتا | شیح شیری
kya kya hain gile usko bata kyun nahin deta

غزل

کیا کیا ہیں گلے اس کو بتا کیوں نہیں دیتا

ابن رضا

;

کیا کیا ہیں گلے اس کو بتا کیوں نہیں دیتا
تعزیر خطا مجھ کو سنا کیوں نہیں دیتا

ہیں ناوک دل دوز مرے یار کے تیور
اک بار وہ سب تیر چلا کیوں نہیں دیتا

یک طرفہ محبت کے تذبذب سے تو نکلوں
اس راز سے پردہ وہ ہٹا کیوں نہیں دیتا

لکھتا بھی ہے مجھ کو سر قرطاس محبت
مذموم جو لگتا ہوں مٹا کیوں نہیں دیتا

اتنا ہی فسردہ ہے اگر حال پہ میرے
جلوہ کبھی اپنا وہ دکھا کیوں نہیں دیتا

سر گرم سفر ہوں میں ترے دشت میں کب سے
مجھ کو مری منزل کا پتا کیوں نہیں دیتا

خوابیدہ نصیبی بھی تو تیری ہی عطا ہے
سوئی مری تقدیر جگا کیوں نہیں دیتا

جو تاب تماشا ہی نہیں اس میں رضاؔ تو
وہ آتش فرقت کو بجھا کیوں نہیں دیتا