EN हिंदी
کیا کچھ نہ کیا اور ہیں کیا کچھ نہیں کرتے | شیح شیری
kya kuchh na kiya aur hain kya kuchh nahin karte

غزل

کیا کچھ نہ کیا اور ہیں کیا کچھ نہیں کرتے

بہادر شاہ ظفر

;

کیا کچھ نہ کیا اور ہیں کیا کچھ نہیں کرتے
کچھ کرتے ہیں ایسا بخدا کچھ نہیں کرتے

اپنے مرض غم کا حکیم اور کوئی ہے
ہم اور طبیبوں کی دوا کچھ نہیں کرتے

معلوم نہیں ہم سے حجاب ان کو ہے کیسا
اوروں سے تو وہ شرم و حیا کچھ نہیں کرتے

گو کرتے ہیں ظاہر کو صفا اہل کدورت
پر دل کو نہیں کرتے صفا کچھ نہیں کرتے

وہ دلبری اب تک مری کچھ کرتے ہیں لیکن
تاثیر ترے نالے دلا کچھ نہیں کرتے

دل ہم نے دیا تھا تجھے امید وفا پر
تم ہم سے نہیں کرتے وفا کچھ نہیں کرتے

کرتے ہیں وہ اس طرح ظفرؔ دل پہ جفائیں
ظاہر میں یہ جانو کہ جفا کچھ نہیں کرتے