EN हिंदी
کیا کوئی دے سکے پتہ میرا | شیح شیری
kya koi de sake pata mera

غزل

کیا کوئی دے سکے پتہ میرا

قائم نقوی

;

کیا کوئی دے سکے پتہ میرا
بھید مجھ پر بھی کب کھلا میرا

آنکھ کی لو میں ہے ضمیر کی لو
مجھ میں زندہ ہے رہنما میرا

خاک ہو کر روش روش لکھوں
جانے کس سمت ہو خدا میرا

گا رہا ہوں میں وقت کی لے پر
لمحہ لمحہ ہے آشنا میرا

ریزہ ریزہ ہوئے ہیں خواب مرے
پھر بھی قائم ہے حوصلہ میرا