EN हिंदी
کیا کسی بات کی سزا ہے مجھے | شیح شیری
kya kisi baat ki saza hai mujhe

غزل

کیا کسی بات کی سزا ہے مجھے

عین عرفان

;

کیا کسی بات کی سزا ہے مجھے
راستہ پھر بلا رہا ہے مجھے

زندہ رہنے کی مجھ کو عادت ہے
روز مرنے کا تجربہ ہے مجھے

اتنا گم ہوں کے اب مرا سایا
میرے اندر بھی ڈھونڈتا ہے مجھے

چاند کو دیکھ کر یوں لگتا ہے
چاند سے کوئی دیکھتا ہے مجھے

پہلے تو جستجو تھی منزل کی
اب کوئی کام دوسرا ہے مجھے

یے مری نیند کس مقام پہ ہے
خواب میں خواب دکھ رہا ہے مجھے

آئنہ میں چھپا ہوا چہرہ
ایسا لگتا ہے جانتا ہے مجھے