کیا کھینچے ہے خود کو دور اللہ
اللہ رے ترا غرور اللہ
حسن ایسا کہاں ہے مہر و مہ میں
کچھ اور ہی ہے یہ نور اللہ
ہم نے تو بچشم خویش دیکھا
ہر شے میں ترا ظہور اللہ
ہم ہیں ترے بندے میرے صاحب
گو شیخ کو دیوے حور اللہ
پہلو سے مرے نکل گیا بت
کیا مجھ سے ہوا قصور اللہ
جس دم میں کروں ہوں نالہ دل سے
اٹھتا ہے کتنا شور اللہ
اے مصحفیؔ حق نہیں سمجھتا
کتنا ہوں میں بے شعور اللہ
غزل
کیا کھینچے ہے خود کو دور اللہ
مصحفی غلام ہمدانی