EN हिंदी
کیا خبر تھی رنجشیں ہی درمیاں رہ جائیں گی | شیح شیری
kya KHabar thi ranjishen hi darmiyan rah jaengi

غزل

کیا خبر تھی رنجشیں ہی درمیاں رہ جائیں گی

اشوک مزاج بدر

;

کیا خبر تھی رنجشیں ہی درمیاں رہ جائیں گی
ہم گلے ملتے رہیں گے دوریاں رہ جائیں گی

یہ نگر بھی کارخانوں کا نگر ہو جائے گا
ان درختوں کی جگہ کچھ چمنیاں رہ جائیں گی

دھیرے دھیرے شور سناٹوں میں گم ہو جائے گا
اور سڑکوں پر چمکتی بتیاں رہ جائیں گی

رات جس دم اپنے کمبل میں چھپا لے گی ہمیں
ہاتھ ملتی اور ٹھٹھرتی سردیاں رہ جائیں گی

ہم نے سوچا تھا کہ ان کا ہاتھ ہوگا ہاتھ میں
کیا خبر تھی ہاتھ میں بس چٹھیاں رہ جائیں گی

یہ تماشہ اور تھوڑی دیر تک ہوگا ابھی
پھر یہاں بس خالی خالی کرسیاں رہ جائیں گی

آگ تھوڑی دیر کو بجھ جائے گی لیکن مزاج
راکھ کے نیچے دبی چنگاریاں رہ جائیں گی