کیا خبر تھی رنجشیں ہی درمیاں رہ جائیں گی
ہم گلے ملتے رہیں گے دوریاں رہ جائیں گی
یہ نگر بھی کارخانوں کا نگر ہو جائے گا
ان درختوں کی جگہ کچھ چمنیاں رہ جائیں گی
دھیرے دھیرے شور سناٹوں میں گم ہو جائے گا
اور سڑکوں پر چمکتی بتیاں رہ جائیں گی
رات جس دم اپنے کمبل میں چھپا لے گی ہمیں
ہاتھ ملتی اور ٹھٹھرتی سردیاں رہ جائیں گی
ہم نے سوچا تھا کہ ان کا ہاتھ ہوگا ہاتھ میں
کیا خبر تھی ہاتھ میں بس چٹھیاں رہ جائیں گی
یہ تماشہ اور تھوڑی دیر تک ہوگا ابھی
پھر یہاں بس خالی خالی کرسیاں رہ جائیں گی
آگ تھوڑی دیر کو بجھ جائے گی لیکن مزاج
راکھ کے نیچے دبی چنگاریاں رہ جائیں گی
غزل
کیا خبر تھی رنجشیں ہی درمیاں رہ جائیں گی
اشوک مزاج بدر