کیا خبر تھی راز دل اپنا عیاں ہو جائے گا
کیا خبر تھی آہ کا شعلہ زباں ہو جائے گا
حشر ہونے دے ستم گر ہم دکھا دیں گے تجھے
پیارا پیارا یہ گریباں انگلیاں ہو جائے گا
رات بھر کی ہیں بہاریں شمع کیا پروانہ کیا
صبح ہوتے ہوتے رخصت کارواں ہو جائے گا
حشر میں انصاف ہوگا بس یہی سنتے رہو
کچھ یہاں ہوتا رہا ہے کچھ وہاں ہو جائے گا
اس کو کہتے ہیں جہاں میں لوگ سچی الفتیں
تیر جب دل سے کھچے گا تو کماں ہو جائے گا
آڑی سیدھی پڑتی ہیں نظریں تمہیں پر آج تو
مجمع تار نظر کیا بدھیاں ہو جائے گا
ہے یہی رنگ سخن تو شاعرؔ شیریں زباں
تو بھی اک دن طوطئ ہندوستاں ہو جائے گا
غزل
کیا خبر تھی راز دل اپنا عیاں ہو جائے گا
آغا شاعر قزلباش