EN हिंदी
کیا خبر تھی کوئی رسوائے جہاں ہو جائے گا | شیح شیری
kya KHabar thi koi ruswa-e-jahan ho jaega

غزل

کیا خبر تھی کوئی رسوائے جہاں ہو جائے گا

شیر سنگھ ناز دہلوی

;

کیا خبر تھی کوئی رسوائے جہاں ہو جائے گا
کچھ نہ کہنا بھی مرا حسن بیاں ہو جائے گا

اپنے دیوانے کا تم جوش جنوں بڑھنے تو دو
آستیں دامن گریباں دھجیاں ہو جائے گا

عاشق جانباز ہیں ہم منہ نہ موڑیں گے کبھی
تم کماں سے تیر چھوڑو امتحاں ہو جائے گا

ٹوٹی پھوٹی قبر بھی کر دو برابر شوق سے
یہ بھی اپنی بے نشانی کا نشاں ہو جائے گا

شادیانے بج رہے ہیں آج جس جا نازؔ کل
دم زدن میں دیکھ لینا کیا سماں ہو جائے گا