کیا خبر تھی کوئی رسوائے جہاں ہو جائے گا
کچھ نہ کہنا بھی مرا حسن بیاں ہو جائے گا
اپنے دیوانے کا تم جوش جنوں بڑھنے تو دو
آستیں دامن گریباں دھجیاں ہو جائے گا
عاشق جانباز ہیں ہم منہ نہ موڑیں گے کبھی
تم کماں سے تیر چھوڑو امتحاں ہو جائے گا
ٹوٹی پھوٹی قبر بھی کر دو برابر شوق سے
یہ بھی اپنی بے نشانی کا نشاں ہو جائے گا
شادیانے بج رہے ہیں آج جس جا نازؔ کل
دم زدن میں دیکھ لینا کیا سماں ہو جائے گا
غزل
کیا خبر تھی کوئی رسوائے جہاں ہو جائے گا
شیر سنگھ ناز دہلوی