کیا خبر کب سے پیاسا تھا صحرا
سارے دریا کو پی گیا صحرا
لوگ پگڈنڈیوں میں کھوئے رہے
مجھ کو رستہ دکھا گیا صحرا
دھوپ نے کیا کیا سلوک اس سے
جیسے دھرتی پہ بوجھ تھا صحرا
بڑھتی آتی تھی موج دریا کی
میں نے گھر میں بلا لیا صحرا
جانے کس شخص کا مقدر ہے
دھوپ میں تپتا بے صدا صحرا
کھو کے اپنا وجود اندھیرے میں
رات کتنا اداس تھا صحرا
ذہن کو وادیاں اٹھاتے پھریں
آنکھ میں آ کے بس گیا صحرا
میرے قدموں کو چومنے کے لئے
رستے رستے سے جا ملا صحرا
میں سمندر کو گھر میں لے آیا
میرے در پر پڑا رہا صحرا
میرا اس میں بکھرنا تھا عابدؔ
پھر مجھے ڈھونڈھتا پھرا صحرا
غزل
کیا خبر کب سے پیاسا تھا صحرا
عابد عالمی