کیا خبر کب نیند آئے دیدۂ بے خواب میں
شام سے ہم جل رہے ہیں سایۂ مہتاب میں
اب تمہاری یاد سے پڑتے ہیں یوں دل میں بھنور
جیسے کنکر پھینک دے کوئی بھرے تالاب میں
جس گلی میں گھر تمہارا ہے کرو اس کا خیال
ہم تو ہیں بد نام اپنے حلقۂ احباب میں
اہل دل جاتے تھے پہلے صرف مقتل کی طرف
خود کشی بھی اب ہے شامل عشق کے آداب میں
یوں کسی کا پیار آغوش ہوس میں جا چھپا
کوئی لاشہ جس طرح لپٹا ہوا کمخاب میں
رحمت یزداں سے مانگی ہم نے دو چھینٹوں کی بھیک
وہ ہوا جل تھل کہ بستی بہہ گئی سیلاب میں
گردش دوراں کی زد میں یوں ہے اپنی زندگی
جیسے چکراتی ہو کشتی حلقۂ گرداب میں
وادئ سربن میں تھیں جو مہرباں مجھ پر قتیلؔ
وہ بہاریں ڈھونڈھتی ہیں اب مجھے پنجاب میں
غزل
کیا خبر کب نیند آئے دیدۂ بے خواب میں
قتیل شفائی