کیا کروں ظرف شناسائی کو
میں ترس جاتا ہوں تنہائی کو
خامشی زور بیاں ہوتی ہے
راستہ دیجئے گویائی کو
تیرے جلووں کی فراوانی ہے
اور کیا چاہئے بینائی کو
ان کی ہر بات بہت میٹھی ہے
منہ لگاتے نہیں سچائی کو
اے سمندر میں قتیل غم ہوں
جانتا ہوں تری گہرائی کو
بیٹھا رہتا ہوں اکیلا یوں ہی
یاد کر کے تری یکتائی کو
کھینچ لے جاتے ہیں کچھ دیوانے
اپنی جانب ترے سودائی کو
اف تماشہ گہ دنیا عازمؔ
کتنی فرصت ہے تماشائی کو
غزل
کیا کروں ظرف شناسائی کو
عین الدین عازم