کیا کروں کچھ بھی سمجھ آتا نہیں
وہ خیالوں سے مرے جاتا نہیں
کیا خبر چہرہ کہاں وہ کھو گیا
خواب میں بھی جو نظر آتا نہیں
رات جگنو چاند تاروں کا ہجوم
دل پریشاں چین کیوں پاتا نہیں
کوئی سورج اپنے دامن میں لیے
خواب فردا کا نشاں آتا نہیں
برف ذہنوں میں جمی ہے اس قدر
حادثوں کا ڈر بھی گرماتا نہیں
اس قدر دھندلا گیا ہے آئنہ
کوئی بھی چہرہ نظر آتا نہیں
کس لیے ان کے تصور کا طلسم
اب دل مشتاقؔ بہلاتا نہیں
غزل
کیا کروں کچھ بھی سمجھ آتا نہیں
مشتاق سنگھ