EN हिंदी
کیا کرتا میں ہم عصروں نے تنہا مجھ پر چھوڑ دیا | شیح شیری
kya karta main ham-asron ne tanha mujh par chhoD diya

غزل

کیا کرتا میں ہم عصروں نے تنہا مجھ پر چھوڑ دیا

مظفر حنفی

;

کیا کرتا میں ہم عصروں نے تنہا مجھ پر چھوڑ دیا
سب نے بوسہ دے کر سچ کا بھاری پتھر چھوڑ دیا

ڈھیلا پڑتا تھا سولی کا پھندا اس کی گردن پر
میرے قاتل کو منصف نے فدیہ لے کر چھوڑ دیا

دریا کے رخ بہنے والی مچھلی مردہ مچھلی ہے
اس کشتی کی خیر نہیں ہے جس نے لنگر چھوڑ دیا

شعلوں کی اس ہمدردی پر دل میں لاوا پکتا ہے
جب ساری بستی پھونکی تھی کیوں میرا گھر چھوڑ دیا

سورج نے بھی سوچ سمجھ کر جال بچھائے کرنوں کے
شبنم شبنم ڈاکہ ڈالا اور سمندر چھوڑ دیا

سارا گھر سوتا ہے دو گھنٹے میں آئے گا اخبار
آج مظفرؔ پانچ بجے ہی کیسے بستر چھوڑ دیا