EN हिंदी
کیا کریں جا کے گلستاں میں ہم | شیح شیری
kya karen ja ke gulistan mein hum

غزل

کیا کریں جا کے گلستاں میں ہم

مصحفی غلام ہمدانی

;

کیا کریں جا کے گلستاں میں ہم
ہیں بہ کنج قفس فغاں میں ہم

جانتے آپ سے جدا تجھ کو
کرتے گر فرق جسم و جاں میں ہم

ہیں تجلیٔ ذات کے تیری
ایک پردہ سا درمیاں میں ہم

گل کا یہ رنگ ہے تو اب اک دن
آگ رکھ دیں گے آشیاں میں ہم

واں تغافل نے اپنا کام کیا
یاں رہے مہر کے گماں میں ہم

آسماں کو نشانہ کرتے ہیں
تیر رکھتے ہیں جب کماں میں ہم

مر کے نکلے قفس سے خوب ہوا
تنگ آئے تھے اس مکاں میں ہم

گر یہی آہ ہے تو دیکھو گے
رخنے کر دیں گے آسماں میں ہم

شاخ گل کے گلے سے لگ لگ کر
روتے ہیں موسم خزاں میں ہم

باغ تک جاتے ہاں اگر پاتے
طاقت اس جسم ناتواں میں ہم

مصحفیؔ عشق کر کے آخر کار
خوب رسوا ہوئے جہاں میں ہم