EN हिंदी
کیا کہوں وہ کدھر نہیں رہتا | شیح شیری
kya kahun wo kidhar nahin rahta

غزل

کیا کہوں وہ کدھر نہیں رہتا

تابش کمال

;

کیا کہوں وہ کدھر نہیں رہتا
ہاں مگر اس نگر نہیں رہتا

تو ہو تیرا خیال ہو یا خواب
کوئی بھی رات بھر نہیں رہتا

جب سکوں ہی نہ دے سکے تو پھر
گھر کسی طور گھر نہیں رہتا

جس گھڑی چاہو تم چلے آؤ
میں کوئی چاند پر نہیں رہتا

یوں تو اپنی بھی جستجو ہے مجھے
تجھ سے بھی بے خبر نہیں رہتا

دل فگاروں کے شہر میں تابشؔ
ایک بھی بخیہ گر نہیں رہتا