EN हिंदी
کیا کہوں ہم نشیں یہ میرا بھاگ | شیح شیری
kya kahun ham-nashin ye mera bhag

غزل

کیا کہوں ہم نشیں یہ میرا بھاگ

نوح ناروی

;

کیا کہوں ہم نشیں یہ میرا بھاگ
ایک جان اور سیکڑوں ہیں کھڑاگ

پھر کبھی مے سے توبہ کر لوں گا
اب تو بوتل کا کھل گیا ہے کاگ

دیدہ و دل کی نبھ نہیں سکتی
اس میں پانی ہے اور اس میں آگ

کر کے وہ ذکر جور ڈھائیں گے
تار بولا کہ ہم نے بوجھا راگ

اب خزاں میں کہاں وہ رنگ چمن
جلد تر لٹ گیا دلہن کا سہاگ

مفلسی میں ہے دل امیروں کا
ہم لنگوٹی میں کھیلتے ہیں پھاگ

دل ہمارا بتوں کو بھول گیا
اب نہ کاشی نظر میں ہے نہ پراگ

چور سے کہہ رہے ہیں چوری کر
اور وہ کہہ رہے ہیں شاہ سے جاگ

شعلہ رو میں نے کیوں کہا ان کو
اور بھی ہو گئے وہ سن کر آگ

بزم عیش و نشاط ہو گئی ختم
اب کہاں راگنی کہاں وہ راگ

کیوں سنبھلتا نہیں مزاج اپنا
ہے دوا و مرض میں شاید لاگ

سب ترے دوست سب مرے دشمن
اک مرا بخت ایک تیرا بھاگ

کوئی لحظے کو بھی نہیں رکتا
توسن عمر کی ہے ڈھیلی باگ

قول دے کر ترا مکر جانا
مجھ سے اتنا لگاؤ اتنی لاگ

ہے جدھر میری منزل مقصود
میں ادھر جا رہا ہوں بھاگا بھاگ

میں نے دیکھا یہ بزم عالم میں
اپنی ڈفلی ہے اور اپنا راگ

موسم گل ابھی نہیں آیا
چل دئے گھر میں ہم لگا کر آگ

روز ملتے ہیں منہ پر اپنے بھبھوت
عشق میں ہم نے لے لیا بیراگ

دل لگا کر مجھے ہوا معلوم
عشق میں ہیں بڑے بڑے سے کھڑاگ

ان کو طوفان خلق سے کیا ڈر
حضرت نوحؔ ہیں پرانے گھاگ