کیا کہوں دل مائل زلف دوتا کیونکر ہوا
یہ بھلا چنگا گرفتار بلا کیونکر ہوا
جن کو محراب عبادت ہو خم ابروئے یار
ان کا کعبے میں کہو سجدہ ادا کیونکر ہوا
دیدۂ حیراں ہمارا تھا تمہارے زیر پا
ہم کو حیرت ہے کہ پیدا نقش پا کیونکر ہوا
نامہ بر خط دے کے اس نو خط کو تو نے کیا کہا
کیا خطا تجھ سے ہوئی اور وہ خفا کیونکر ہوا
خاکساری کیا عجب کھووے اگر دل کا غبار
خاک سے دیکھو کہ آئینہ صفا کیونکر ہوا
جن کو یکتائی کا دعویٰ تھا وہ مثل آئینہ
ان کو حیرت ہے کہ پیدا دوسرا کیونکر ہوا
تیرے دانتوں کے تصور سے نہ تھا گر آبدار
جو بہا آنسو وہ در بے بہا کیونکر ہوا
جو نہ ہونا تھا ہوا ہم پر تمہارے عشق میں
تم نے اتنا بھی نہ پوچھا کیا ہوا کیونکر ہوا
وہ تو ہے نا آشنا مشہور عالم میں ظفرؔ
پر خدا جانے وہ تجھ سے آشنا کیونکر ہوا
غزل
کیا کہوں دل مائل زلف دوتا کیونکر ہوا
بہادر شاہ ظفر