EN हिंदी
کیا کہیے کہ بیداد ہے تیری بیداد | شیح شیری
kya kahiye ki bedad hai teri bedad

غزل

کیا کہیے کہ بیداد ہے تیری بیداد

فانی بدایونی

;

کیا کہیے کہ بیداد ہے تیری بیداد
طوفان محبت کی ہے زد میں فریاد

دل محشر بے خودی ہے اللہ اللہ
یاد اور کسی بھول جانے والے کی یاد

پابندی رسم بر طرف کیوں اے موت
ان کے بھی کیے ہیں تو نے قیدی آزاد

اللہ یہ بجلیاں نہ کام آئیں گی
آندھی ہی سے کیوں ہو آشیانہ برباد

دنیا جسے کہتا ہے زمانہ فانیؔ
ہے ایک طلسم اجتماع اضداد