کیا کہئے داستان تمنا بدل گئی
ان کی بدلتے ہی دنیا بدل گئی
یہ دور انقلاب ہے خود نوشیوں کا دور
ہر میکدے میں گردش مینا بدل گئی
ہر پھول ہر کلی پہ برستا ہے اب لہو
رنگینیٔ بہار چمن کیا بدل گئی
نکھری ہوئی بہار میں چھالے ہیں خونچکاں
اپنے قدم سے قسمت صحرا بدل گئی
پیہم ٹپک پڑے جو بہ حسرت حضور دوست
ان آنسوؤں سے شرح تمنا بدل گئی
آزادیٔ جنوں کا یہی کیا مآل تھا
زنداں سے دلفریبیٔ صحرا بدل گئی
وہ خواب زندگی تھا جو ہم دیکھتے رہے
اے دلؔ کھلی جب آنکھ تو دنیا بدل گئی
غزل
کیا کہئے داستان تمنا بدل گئی
دل شاہجہاں پوری