کیا کہیں تم سے بود و باش اپنی
کام ہی کیا وہی تلاش اپنی
کوئی دم ایسی زندگی بھی کریں
اپنا سینہ ہو اور خراش اپنی
اپنے ہی تیشۂ ندامت سے
ذات ہے اب تو پاش پاش اپنی
ہے لبوں پر نفس زنی کی دکاں
یاوہ گوئی ہے بس معاش اپنی
تیری صورت پہ ہوں نثار پہ اب
اور صورت کوئی تراش اپنی
جسم و جاں کو تو بیچ ہی ڈالا
اب مجھے بیچنی ہے لاش اپنی
غزل
کیا کہیں تم سے بود و باش اپنی
جون ایلیا