EN हिंदी
کیا کہیں تم سے بود و باش اپنی | شیح شیری
kya kahen tum se bud-o-bash apni

غزل

کیا کہیں تم سے بود و باش اپنی

جون ایلیا

;

کیا کہیں تم سے بود و باش اپنی
کام ہی کیا وہی تلاش اپنی

کوئی دم ایسی زندگی بھی کریں
اپنا سینہ ہو اور خراش اپنی

اپنے ہی تیشۂ ندامت سے
ذات ہے اب تو پاش پاش اپنی

ہے لبوں پر نفس زنی کی دکاں
یاوہ گوئی ہے بس معاش اپنی

تیری صورت پہ ہوں نثار پہ اب
اور صورت کوئی تراش اپنی

جسم و جاں کو تو بیچ ہی ڈالا
اب مجھے بیچنی ہے لاش اپنی