EN हिंदी
کیا کہیں محفل سے تیری کیا اٹھا کر لے گئے | شیح شیری
kya kahen mahfil se teri kya uTha kar le gae

غزل

کیا کہیں محفل سے تیری کیا اٹھا کر لے گئے

مسعودہ حیات

;

کیا کہیں محفل سے تیری کیا اٹھا کر لے گئے
ہم متاع درد کو تنہا اٹھا کر لے گئے

دھوپ کا صحرا نظر آتا ہے اب چاروں طرف
آپ تو ہر پیڑ کا سایا اٹھا کر لے گئے

اس بھری دنیا میں اب تو کوئی بھی اپنا نہیں
جیسے تم ہر درد کا رشتہ اٹھا کر لے گئے

قطرے قطرے کو ترستے ہیں وہ اب اہل ہوس
جو کبھی دھرتی سے ہر دریا اٹھا کر لے گئے

اب وہی ذرے ہمارے حال پر ہیں خندہ زن
آسماں تک جن کو ہم اونچا اٹھا کر لے گئے

کیا غرض ہم کو وہاں اب کوئی بھی آباد ہو
ہم تو اس بستی سے گھر اپنا اٹھا کر لے گئے

وہ تو مجنوں تھا رہا جو عمر بھر صحرا نورد
ہم جہاں پہنچے وہیں صحرا اٹھا کر لے گئے

کر نہ پائے راہ بر بھی رہنمائی جب حیاتؔ
ہم بھی حیرانی میں نقش پا اٹھا کر لے گئے