کیا کہیں کیوں کر ہوا طوفان میں پیدا قفس
موج جب بل کھا کے اٹھی بن گیا دریا قفس
زندگی غم کا بدل ہے آرزوئیں یاس کا
آسماں صیاد ہم قیدی ہیں اور دنیا قفس
دل کے حق میں سینہ زنداں آرزو کے حق میں دل
سیکڑوں دیکھے ہیں لیکن یہ نیا دیکھا قفس
دن اسیری کے بہ ہر صورت گزارے جائیں گے
ایک قیدی کے لئے ہے کیا برا اچھا قفس
کوئی بھی دیوار سد راہ ہو سکتی نہیں
تول بیٹھے پر تو پھر صیاد کیا کیسا قفس
اپنا گھر پھر اپنا گھر ہے اپنے گھر کی بات کیا
غیر کے گلشن سے سو درجہ بھلا اپنا قفس
اے فلکؔ آئی یہاں بھی مجھ کو یاد آشیاں
برق تو گردوں پہ چمکی جگمگا اٹھا قفس
غزل
کیا کہیں کیوں کر ہوا طوفان میں پیدا قفس
ہیرا لال فلک دہلوی