کیا کام انہیں پرسش ارباب وفا سے
مرتا ہے تو مر جائے کوئی ان کی بلا سے
مجھ سے بھی خفا ہو مری آہوں سے بھی برہم
تم بھی ہو عجب چیز کہ لڑتے ہو ہوا سے
دامن کو بچاتا ہے وہ کافر کہ مبادا
چھو جائے کہیں پاکئ خون شہدا سے
دیوانہ کیا ساقئ محفل نے سبھی کو
کوئی نہ بچا اس نظر ہوش ربا سے
اک یہ بھی حقیقت میں ہے شان کرم ان کی
ظاہر میں وہ رہتے ہیں جو ہر وقت خفا سے
آگاہ غم عشق نہیں وہ شہ خوباں
اور یہ بھی جو ہو جائے فقیروں کی دعا سے
قائل ہوئے رندان خرابات کے حسرتؔ
جب کچھ نہ ملا ہم کو گروہ عرفا سے
غزل
کیا کام انہیں پرسش ارباب وفا سے
حسرتؔ موہانی