کیا جلد دن بہار کے یارب گزر گئے
بجلی ہوا سے پوچھ رہی ہے کدھر گئے
شاید اسی غرض سے چڑھے تھے نگاہ پر
وہ راہ پا کے آنکھ سے دل میں اتر گئے
وعدے کا نام لب پہ نہ آئے پیام بر
کہنا فقط یہی کہ بہت دن گزر گئے
اچھوں کا ہے بگاڑ بھی بہتر بناؤ سے
بکھرے تو اور بھی ترے گیسو سنور گئے
اک جلوہ گاہ حسن تھی محشر نہ تھا جلیلؔ
کیا کیا حسیں ہماری نظر سے گزر گئے

غزل
کیا جلد دن بہار کے یارب گزر گئے
جلیلؔ مانک پوری