کیا جانو جو اثر ہے دم شعلہ تاب میں
یہ وہ ہے برق آگ لگا دے نقاب میں
حال اس نگہ کا اس کے سراپے میں کیا کہوں
مور ضعیف پھنس گئی جا شہد ناب میں
ذکر وفا وہ سنتے ہی مجلس سے اٹھ گئے
کچھ گفتگو ہی ٹھیک نہ تھی ایسے باب میں
کیا پوچھتے ہو چارۂ ہو از خویش رفتگاں
سو جا سے چاک جامہ ہے سوزن خلاب میں
آواز صور تیرے شہیدوں کو روز حشر
لگتی تھی اک بھنک سی تو کانوں کو خواب میں
جو دیکھتے ہی اس سے یہ گزرا کبھو نہیں
یعقوب کے خیال و زلیخا کے خواب میں
ہر ہر روئیں سے خرقہ کے میرے ہے خونچکاں
غوطے تو سو دیے اسے زمزم کے آب میں
اس چشم اشکبار کے کیونکر ہو سامنے
رونے کا مادہ ہی نہیں ہے سحاب میں
قسمت تو دیکھ کھولی گرہ کچھ تو رہ گئے
ناخن ہمارے ٹوٹ کے بند نقاب میں
ہر وقت آرزوئے عذاب جحیم ہے
ہاتھوں سے ہجر کے ہوں میں کیا کیا عذاب میں
غزل
کیا جانو جو اثر ہے دم شعلہ تاب میں
مفتی صدرالدین آزردہ