EN हिंदी
کیا جانیں تری امت کس حال کو پہنچے گی | شیح شیری
kya jaanen teri ummat kis haal ko pahunchegi

غزل

کیا جانیں تری امت کس حال کو پہنچے گی

ساحر لدھیانوی

;

کیا جانیں تری امت کس حال کو پہنچے گی
بڑھتی چلی جاتی ہے تعداد اماموں کی

ہر گوشۂ مغرب میں ہر خطۂ مشرق میں
تشریح دگرگوں ہے اب تیرے پیاموں کی

وہ لوگ جنہیں کل تک دعویٰ تھا رفاقت کا
تذلیل پہ اترے ہیں اپنوں ہی کے ناموں کی

بگڑے ہوئے تیور ہیں نو عمر سیاست کے
بپھری ہوئی سانسیں ہیں نو مشق نظاموں کی

طبقوں سے نکل کر ہم فرقوں میں نہ بٹ جائیں
بن کر نہ بگڑ جائے تقدیر غلاموں کی