EN हिंदी
کیا جانے کس کی دھن میں رہا دل فگار چاند | شیح شیری
kya jaane kis ki dhun mein raha dil-figar chand

غزل

کیا جانے کس کی دھن میں رہا دل فگار چاند

اکرام جنجیوعہ

;

کیا جانے کس کی دھن میں رہا دل فگار چاند
سنگم پہ روز و شب کے ڈھلا بار بار چاند

آئی نہ رات بھر کوئی پنگھٹ پہ سانولی
پانی میں چھپ کے بیٹھا رہا بے قرار چاند

کرنوں کی ڈوریوں سے الجھتے ہو کس لیے
کچھ بھی نہ دے سکے گا تجھے داغدار چاند

بازو کے دائرے وہ مہک چوڑیاں کھنک
دو سائے زرد چاندنی دھیمی پکار چاند

سورج تھا وہ تو شام سے پہلے ہی ڈھل گیا
نیلے افق پہ اور بھی ہیں بے شمار چاند

ہر روز میرے گھر میں اترتا ہے کس لیے
مجھ کو بھی اپنے شہر میں اک دن اتار چاند

بستی کے لوگ جانیے کیا سوچتے رہے
بادل کی چھت پہ سویا رہا سوگوار چاند

اب چاندنی کے نام سے نفرت سی ہو گئی
اکرامؔ زندگی کو لگے ایسے چار چاند