کیا جانے کس خمار میں کس جوش میں گرا
وہ پھل شجر سے جو مری آغوش میں گرا
کچھ دائرے سے بن گئے سطح خیال پر
جب کوئی پھول ساغر مے نوش میں گرا
باقی رہی نہ پھر وہ سنہری لکیر بھی
تارا جو ٹوٹ کر شب خاموش میں گرا
اڑتا رہا تو چاند سے یارا نہ تھا مرا
گھائل ہوا تو وادیٔ گل پوش میں گرا
بے آبرو نہ تھی کوئی لغزش مری قتیلؔ
میں جب گرا جہاں بھی گرا ہوش میں گرا
غزل
کیا جانے کس خمار میں کس جوش میں گرا
قتیل شفائی