کیا جانے کہاں بحر الفت کا کنارا ہے
ہر موج کے سینے میں کشتی کو اتارا ہے
اب آہ رکے کیوں کر اب اشک تھمیں کیسے
چلتی ہوئی آندھی ہے بہتا ہوا دھارا
طوفان تدبر ہے گہرائی تدبر کی
میں نے تہ دریا سے ساحل کو ابھارا ہے
پروانے چراغوں پر گرنے لگے مستی میں
یہ محفل ہستی میں کون انجمن آرا ہے
سب ساز کے حامل ہیں نغمہ ہو کہ نالہ ہو
نالہ بھی گوارا کر نغمہ جو گوارا ہے
مخمورؔ کو جینے دو آنکھوں ہی سے پینے دو
یہ بادہ کش الفت نظروں ہی کا مارا ہے

غزل
کیا جانے کہاں بحر الفت کا کنارا ہے
مخمور جالندھری