EN हिंदी
کیا حسن ہے یوسف بھی خریدار ہے تیرا | شیح شیری
kya husn hai yusuf bhi KHaridar hai tera

غزل

کیا حسن ہے یوسف بھی خریدار ہے تیرا

چندر بھان کیفی دہلوی

;

کیا حسن ہے یوسف بھی خریدار ہے تیرا
کہتے ہیں جسے مصر وہ بازار ہے تیرا

تقدیر اسی کی ہے نصیبہ ہے اسی کا
جس آنکھ سے کچھ وعدۂ دیدار ہے تیرا

تا زیست نہ ٹوٹے وہ مرا عہد وفا ہے
تا حشر نہ پورا ہو وہ اقرار ہے تیرا

برچھی کی طرح دل میں کھٹکتی ہیں ادائیں
انداز جو قاتل دم رفتار ہے تیرا

کیا تو نے کھلائے چمن بزم میں کیفیؔ
کیا رنگ گل افشائی گفتار ہے تیرا