کیا ہوا جو ستارے چمکتے نہیں داغ دل کے فروزاں کرو دوستو
صبح عشرت پریشاں ہوئی سو ہوئی شام غم تو نہ ویراں کرو دوستو
نا شناساؤں کی طرفہ غم خواریاں غم کے ماروں کا سب سے بڑا روگ ہے
دور الفت کی چارہ گری ہو نہ ہو پہلے اس دکھ کا درماں کرو دوستو
تلملاتی رہیں ہجر کی کلفتیں جام و مینا کی سر مستیاں کیا ہوئیں
اب یہ مے بھی غموں کا مداوا نہیں اب کوئی اور ساماں کرو دوستو
میری الفت کی سن سن کے رسوائیاں لوگ کرتے ہیں آپس میں سرگوشیاں
تم اگر اتفاقاً سنو چپ رہو مجھ پہ یہ ایک احساں کرو دوستو
غزل
کیا ہوا جو ستارے چمکتے نہیں داغ دل کے فروزاں کرو دوستو
صوفی تبسم