کیا ہوا ہم پہ جو اس بزم میں الزام رہے
صاحب دل تو جہاں بھی رہے بدنام رہے
کوئی تقریب تو ہو دل کے بہلنے کے لئے
تو نہیں ہے تو ترا ذکر ترا نام رہے
ہم کو تو راس ہی آئی کسی کمسن کی وفا
ہائے وہ لوگ محبت میں جو ناکام رہے
اس ارادے سے اٹھایا ہے چھلکتا ہوا جام
ہم رہیں آج کہ یہ گردش ایام رہے
بے سبب کوئی نوازش نہیں کرتا سرشارؔ
دیکھیں کیا ان کی عنایات کا انجام رہے
غزل
کیا ہوا ہم پہ جو اس بزم میں الزام رہے
سرشار صدیقی