EN हिंदी
کیا ہوا ہم پہ جو اس بزم میں الزام رہے | شیح شیری
kya hua hum pe jo is bazm mein ilzam rahe

غزل

کیا ہوا ہم پہ جو اس بزم میں الزام رہے

سرشار صدیقی

;

کیا ہوا ہم پہ جو اس بزم میں الزام رہے
صاحب دل تو جہاں بھی رہے بدنام رہے

کوئی تقریب تو ہو دل کے بہلنے کے لئے
تو نہیں ہے تو ترا ذکر ترا نام رہے

ہم کو تو راس ہی آئی کسی کمسن کی وفا
ہائے وہ لوگ محبت میں جو ناکام رہے

اس ارادے سے اٹھایا ہے چھلکتا ہوا جام
ہم رہیں آج کہ یہ گردش ایام رہے

بے سبب کوئی نوازش نہیں کرتا سرشارؔ
دیکھیں کیا ان کی عنایات کا انجام رہے