EN हिंदी
کیا ہوگا جب مر جائیں گے | شیح شیری
kya hoga jab mar jaenge

غزل

کیا ہوگا جب مر جائیں گے

حبیب کیفی

;

کیا ہوگا جب مر جائیں گے
اپنے اپنے گھر جائیں گے

بات کو پوشیدہ رہنے دے
بات کھلی تو سر جائیں گے

قتل کیے دو چار تو سوچا
ہم بھی تجھ سے ڈر جائیں گے

چاہنے والے تیرے اک دن
چوکھٹ پر سر دھر جائیں گے

اس کی جانب جانے والے
لے کر جلتے پر جائیں گے

صدیاں یاد کریں گی ہم کو
کام ایسے کچھ کر جائیں گے

بن جائیں گے یاد کا حصہ
جب ہم تجھ پر مر جائیں گے

جیسی پائی ہم نے تجھ سے
چادر ویسی دھر جائیں گے