کیا ہوگا جب مر جائیں گے
اپنے اپنے گھر جائیں گے
بات کو پوشیدہ رہنے دے
بات کھلی تو سر جائیں گے
قتل کیے دو چار تو سوچا
ہم بھی تجھ سے ڈر جائیں گے
چاہنے والے تیرے اک دن
چوکھٹ پر سر دھر جائیں گے
اس کی جانب جانے والے
لے کر جلتے پر جائیں گے
صدیاں یاد کریں گی ہم کو
کام ایسے کچھ کر جائیں گے
بن جائیں گے یاد کا حصہ
جب ہم تجھ پر مر جائیں گے
جیسی پائی ہم نے تجھ سے
چادر ویسی دھر جائیں گے
غزل
کیا ہوگا جب مر جائیں گے
حبیب کیفی