EN हिंदी
کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق | شیح شیری
kya haqiqat kahun ki kya hai ishq

غزل

کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق

میر تقی میر

;

کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق
حق شناسوں کے ہاں خدا ہے عشق

دل لگا ہو تو جی جہاں سے اٹھا
موت کا نام پیار کا ہے عشق

اور تدبیر کو نہیں کچھ دخل
عشق کے درد کی دوا ہے عشق

کیا ڈبایا محیط میں غم کے
ہم نے جانا تھا آشنا ہے عشق

عشق سے جا نہیں کوئی خالی
دل سے لے عرش تک بھرا ہے عشق

کوہ کن کیا پہاڑ کاٹے گا
پردے میں زور آزما ہے عشق

عشق ہے عشق کرنے والوں کو
کیسا کیسا بہم کیا ہے عشق

کون مقصد کو عشق بن پہنچا
آرزو عشق مدعا ہے عشق

میرؔ مرنا پڑے ہے خوباں پر
عشق مت کر کہ بد بلا ہے عشق