کیا حقیقت ہے کیا کہانی ہے
مختصر اپنی زندگانی ہے
ٹوٹ کر بہہ رہی ہیں چٹانیں
آج غم میں بڑی روانی ہے
کاش پردیس سے چلے آؤ
آج کی شب بڑی سہانی ہے
آج تک انتظار ہے اس کا
ایک لڑکی بڑی دوانی ہے
آج پہچانتا نہیں مجھ کو
میں نے ہر بات جس کی مانی ہے
تجھ کو اپنا بنا کے چھوڑوں گی
اب یہی بات دل میں ٹھانی ہے
اس کو پانے کی آس میں نسرینؔ
ہم نے صحرا کی خاک چھانی ہے
غزل
کیا حقیقت ہے کیا کہانی ہے
نسرین نقاش