EN हिंदी
کیا حقیقت ہے کیا کہانی ہے | شیح شیری
kya haqiqat hai kya kahani hai

غزل

کیا حقیقت ہے کیا کہانی ہے

نسرین نقاش

;

کیا حقیقت ہے کیا کہانی ہے
مختصر اپنی زندگانی ہے

ٹوٹ کر بہہ رہی ہیں چٹانیں
آج غم میں بڑی روانی ہے

کاش پردیس سے چلے آؤ
آج کی شب بڑی سہانی ہے

آج تک انتظار ہے اس کا
ایک لڑکی بڑی دوانی ہے

آج پہچانتا نہیں مجھ کو
میں نے ہر بات جس کی مانی ہے

تجھ کو اپنا بنا کے چھوڑوں گی
اب یہی بات دل میں ٹھانی ہے

اس کو پانے کی آس میں نسرینؔ
ہم نے صحرا کی خاک چھانی ہے