کیا فرض ہے یہ جسم کے زنداں میں سزا دے
میں خاک اگر ہوں تو ہواؤں میں اڑا دے
اک عمر سے محسوس کیے جاتا ہوں خود کو
کوئی مجھے چھوکر مرے ہونے کا پتا دے
میں جنبش انگشت میں محفوظ رہوں گا
ہر چند مجھے ریت پہ تو لکھ کے مٹا دے
اجڑا ہوا یہ پیڑ بھی دے جائے گا منظر
سوکھی ہوئی شاخوں میں کوئی چاند پھنسا دے
تو جس کے تصور میں ملا کرتا ہے مجھ سے
اس شخص سے میری بھی ملاقات کرا دے
بہتی ہوئی اس بھیڑ کے طوفان میں شاہدؔ
کس لہر کو پکڑے کوئی اور کس کو صدا دے
غزل
کیا فرض ہے یہ جسم کے زنداں میں سزا دے
شاہد کبیر