کیا دعائے فرسودہ حرف بے اثر مانگوں
تشنگی میں جینے کا اب کوئی ہنر مانگوں
دھوپ دھوپ چل کر بھی جب تھکے نہ ہمراہی
کیسے اپنی خاطر میں سایۂ شجر مانگوں
آئنہ نوازی سے کچھ نہیں ہوا حاصل
خود بنے جو آئینہ اب وہی ہنر مانگوں
اک طرف تعصب ہے اک طرف ریاکاری
ایسی بے پناہی میں کیا سکوں کا گھر مانگوں
میری زندگی میں جو بٹ نہ جائے خانوں میں
مل سکے تو میں ایسا کوئی بام و در مانگوں
لمحہ لمحہ تیزی سے اب زمیں کھسکتی ہے
خود سفر کا عالم ہے کیا کوئی سفر مانگوں
بے طلب ہی دیتا ہے جب ظہیرؔ وہ سب کچھ
کس لیے میں پھر اس سے جنس معتبر مانگوں
غزل
کیا دعائے فرسودہ حرف بے اثر مانگوں
ظہیرؔ غازی پوری