کیا داستاں تھی پہلے بیاں ہی نہیں ہوئی
پھر یوں ہوا کہ صبح اذاں ہی نہیں ہوئی
دنیا کہ داشتہ سے زیادہ نہ تھی مجھے
یوں ساری عمر فکر زیاں ہی نہیں ہوئی
گل ہائے لطف کا اسے انبار کرنا تھا
کم بخت آرزو کہ جواں ہی نہیں ہوئی
تا صبح میری لاش رہی بے کفن تو کیا
بانوئے شام نوحہ کناں ہی نہیں ہوئی
غزل
کیا داستاں تھی پہلے بیاں ہی نہیں ہوئی
سراج اجملی