EN हिंदी
کیا داستاں تھی پہلے بیاں ہی نہیں ہوئی | شیح شیری
kya dastan thi pahle bayan hi nahin hui

غزل

کیا داستاں تھی پہلے بیاں ہی نہیں ہوئی

سراج اجملی

;

کیا داستاں تھی پہلے بیاں ہی نہیں ہوئی
پھر یوں ہوا کہ صبح اذاں ہی نہیں ہوئی

دنیا کہ داشتہ سے زیادہ نہ تھی مجھے
یوں ساری عمر فکر زیاں ہی نہیں ہوئی

گل ہائے لطف کا اسے انبار کرنا تھا
کم بخت آرزو کہ جواں ہی نہیں ہوئی

تا صبح میری لاش رہی بے کفن تو کیا
بانوئے شام نوحہ کناں ہی نہیں ہوئی