کیا چاہا تھا کیا سوچا تھا کیا گزری کیا بات ہوئی
دل بھی ٹوٹا گھر بھی چھوٹا رسوائی بھی ساتھ ہوئی
وہ کیا جانے اس سے بچھڑ کے ہم پر کیا کیا گزری ہے
صحرا جیسا دن کا عالم پربت جیسی رات ہوئی
اس کے خط کو کیسے پڑھوں میں سارے لفظ تو بھیگے ہیں
میری چھت پر بادل چھائے اس کے گھر برسات ہوئی
یوں کھوئے ہم یاد میں اس کی گویا خود کو بھول گئے
کسی خبر ہے کب دن نکلا کسے پتہ کب رات ہوئی
دل کے پیاسے آنگن میں کل یاد کے بادل یوں آئے
دیر تلک یہ تن من بھیگا بے موسم برسات ہوئی
غزل
کیا چاہا تھا کیا سوچا تھا کیا گزری کیا بات ہوئی
دیومنی پانڈے